ایک پرانی سی بڑ کی شاخ پر ایک خوبصورت سی کبوتَر کا جوڑا رہتا تھا۔ نر کبوتر کا نام چاند تھا اور ماده کبوتَر کا نام مینا۔ وہ دونوں بہت خوش تھے اور ان کا گھونسلہ ہمیشہ چہچہاہٹ اور گیتوں سے گونجتا رہتا تھا۔

ایک دن، ایک بوڑھا آدمی جو اپنی چھڑی کے سہارے چل رہا تھا، اسی درخت کے نیچے آرام کرنے کے لیے آ گیا۔ چاند اور مینا نے اسے دیکھا اور چاند نے پوچھا، “آپ کون ہیں اور یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟”

بوڑھے آدمی نے سر اٹھایا اور مسکراتے ہوئے کہا، “میرا نام اکبر ہے اور میں اپنی گمشدہ خوشیوں کو تلاش کر رہا ہوں۔”

چاند اور مینا حیران ہو گئے۔ “گم شدہ خوشیاں؟” مینا نے پوچھا۔ “وہ کیسی ہوتی ہیں؟”

اکبر نے گہری سانس لی اور کہا، “وہ چیزیں جو مجھے پہلے خوشی دیتی تھیں، اب وہ سب ختم ہو چکی ہیں۔ میرے بچے بڑے ہو گئے ہیں اور میرے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔”

چاند اور مینا اکبر کی بات سن کر غمگین ہو گئے۔ چاند نے سوچا اور پھر کہا، “شاید ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔”

اکبر حیران ہوا اور پوچھا، “تم لوگ میری مدد کیسے کر سکتے ہو؟”

چاند نے مسکرا کر کہا، “ہم آپ کو وہ چیزیں دکھاتے ہیں جن سے ہمیں خوشی ملتی ہے۔ آسمان کی وسعت، بادلوں کی نرمی، پھولوں کی خوشبو، اور ہر صبح سورج کا نکلنا۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے ہمیں ہر روز خوشی ملتی ہے۔”

اگلے کچھ دنوں میں، چاند اور مینا اکبر کو اپنے ساتھ لے جاتے، آسمان کی سیر کراتے، اور اسے پرندوں کے گیت سنا تے۔ اکبر نے غور سے ان باتوں کو سنا اور اپنے ارد گرد کی خوبصورتی کو دیکھا جو پہلے اس کی نظروں سے اوجھل تھیں۔ آہستہ آہستہ، اکبر کے چہرے پر ایک بار پھر مسکراہٹ لوٹ آئی۔

ایک صبح، جب چاند اور مینا اکبر سے ملنے گئے تو وہ ان کے انتظار میں نہیں تھا۔ اس کی جگہ پر ایک چھوٹا سا نوٹ رکھا تھا جس میں لکھا تھا، “شکریہ چاند اور مینا، آپ نے مجھے میری گمشدہ خوشیاں واپس دلانے میں مدد کی ہے۔ میں اب پہلے سے زیادہ خوش ہوں اور زندگی کی خوبصورتی کا شکر گزار ہوں۔”

چاند اور مینا خوشی سے چہچہا اٹھے۔ انہوں نے سیکھا تھا کہ خوشی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں ملتی ہے اور اسے دوسروں کے ساتھ بانٹنا اسے مزید بڑھا دیتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights